Dev Hindavi

Nov 30, 20191 min

نظم

زنا بل جبر ہ

جسم تار تار ہے

لہو کے تھکے یہاں وہاں

دماغ پہ چوٹ

روح پے کھرونچیں

ذہن میں چھٹپٹاہٹ

بدن خاموش ہے

ایک دیکھ دب کے رہ گئ ہے

کھولی آنکھیں دور کہیں تکتی ہیں

سہما سکڑا عکس

طوفاں تہیہ کئے

آنسؤں کو صبر ہے شاید

چھپے ہیں پلکوں کی آڈھ لئے

ن چھلکتے ہیں

نہ توڑ کے بہتے ہیں

اب نہ طاقت ہے

نہ ضرورت ہے کوی باقی

پل میں اجڑ گئ ہے بستی

کون اب اسے بسائگا

وہ جو پنجوں کے نشاں ہیں وہاں

کوی درندہ یہاں سے گزرا ہے

دیوار و در خاموش

ماتم ہے انسانیت کی موت کا

یہ زنا بل جبر ہے

    30
    1