نظم
نظم

دل شاد ہونگے گنگناتے ہیں
چاہتِ وصل کی چمک لئے آنکھوں میں
میں ہر سانس میں لیتا ہوں اس کا نام
اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
تہ کر کہ خیالوں کو
رات کی چادر لپیٹی
صبح کی کھڑکی کھولی
مقامِ وصل اس کے آنے کے انتظار میں
وقت پل پل گھڑی گھڑی بیتا
مگر نہ وہ آئ نہ اس کی خبر
شام ہوئی لوٹ آیا
نہ کوئ خط نہ کوی سندیس
برسوں گزرے لیکن آج بھی اکثر
ہولۓ سے سر کو جھکا کر
دل سے اپنے پوچھ لیا کرتا ہوں
اس نے وعدہ کیا تھا آنے کا
وہ آی کیوں نہیں؟